How To Handle Psychological Accident? || recovery feeling words || Broken Heart Quotes


 

How To Handle Yourself After Any Psychological Accident?

How can I recover from a traumatic event?

 

There are Five steps to recover feeling injury……:

 

First:

 Acceptance    "When we learn to accept instead of expect! We will have fewer disappointments". - Accept everything happens for a reason & that you need to work on yourself. - Accept people can hide who they really are & it is not your fault that they were the way they were.

Second:

 Feel it,   the feeling that you do not want to feel! Feel it to heal it & become free! “What you resist persists, what you look at disappears".

Third:

 Learn & Understand    Ask yourself: What’s good about what happen? How it can help you to become better, & more resourceful? "Look for the answer inside your question".

Fourth:

Change your story        When you come out of the storm, proceed with your life as a survivor not a victim.

Fifth:

 Focus on yourself Do what’s necessary to get yourself into a peak state emotionally, mentally & the right person will show up in the right way & time. "Align with love and tap into abundance".

سر بزم میری نظر سے جب وہ نگاہ ہوش ربا ملی | کبھی زندگی کا مزہ ملا کبھی زندگی کی سزا ملی

 

سر بزم میری نظر سے جب وہ نگاہ ہوش ربا ملی

کبھی زندگی کا مزہ ملا کبھی زندگی کی سزا ملی

 

کئی منزلوں سے گزر گئے تو ہمیں یہ راہ وفا ملی

کہیں دل ملا کہیں درد دل کہیں درد دل کی دوا ملی

 

تمہیں یاد ہے مرے ساتھیو کہ بچھڑ گئے تھے وہیں سے ہم

تمہیں درد دل کی دوا ملی مجھے درد دل کی دعا ملی

 

نہ بہا سکے کبھی اشک بھی تری برہمی کے خیال سے

گئے لے کے جلتے چراغ ہم تو ہمیشہ تیز ہوا ملی

 

نہیں غم جو مجھ کو زمانے میں کوئی غم کی داد نہ دے سکا

مگر ان کے دل پہ لکھی ہوئی مری داستان وفا ملی

 

دل کائنات تڑپ اٹھا وہ شعور نغمہ عطا کیا

جو صدائے ساز حیات سے مرے ساز دل کی صدا ملی

 

جو زمانہ بھول گیا تو کیا کہ چلن یہی ہے زمانے کا

مگر ان کے دل پہ لکھی ہوئی مری داستان وفا ملی


نگاہ مست سے یہ کیا پلا دیا تو نے | لبوں میں شورِ انا الحق اٹھا دیا تو نے


 

نگاہ مست سے یہ کیا پلا دیا تو نے

لبوں میں شورِ انا الحق اٹھا دیا تو نے

 

میں خوش ہوں تیرے سوا کوئی آرزو نہ رہی

وہ غم دیا کہ ہر اک غم بھلا دیا تو نے

 

یقین آئے کسے میں تو خود بھی حیراں ہو

لبوں سے کہہ نہ سکوں جو دکھا دیا تو نے

 

ہے سوز جاں سے ہی تکمیل آدمی ممکن

وہ درد بخشا کہ انساں بنا دیا تو نے

 

شب حیات میں دو گام چلنا مشکل تھا

قدم قدم پہ مجھے آسرا دیا تو نے

 

یہ تیری مست نگاہی کا فیض ہے سارا

نظر ملا کے خدا سے ملا دیا تو نے

 

کبھی کبھی تو یہ محسوس ہونے لگتا ہے

حجاب جسمی ہی جیسے اٹھا دیا تو نے

 

نا جانے کون یہاں آگ لینے آئے گا

کہ دیارِ عاشقی میں راہِ واپسی نہیں ہے

 

میں جب بھی بجھنے لگا ہوں جلا دیا تو نے

 

میں سوز عشق سے شاداب ہوں علیم اللہ

ہزار شکر ہے جینا سکھا دیا تو نے

تمہارے آستاں سے جس کو نسبت ہوتی جاتی ہے | اسے حاصل زمانے بھر کی رفعت ہوتی جاتی ہے


 

تمہارے آستاں سے جس کو نسبت ہوتی جاتی ہے

اسے حاصل زمانے بھر کی رفعت ہوتی جاتی ہے

 

کچھ اس انداز سے ان کی عنایت ہوتی جاتی ہے

تماشا گاہ عالم میری صورت ہوتی جاتی ہے

 

تمہارے حسن کے جلوے نگاہوں میں سمائے ہیں

ہماری زندگی تصویر حیرت ہوتی جاتی ہے

 

تمہاری یاد نے وہ روشنی بخشی ہے اشکوں کو

کہ ان سے میرے غم خانے کی زینت ہوتی جاتی ہے

 

رضائے دوست کی پھر منزلیں آسان ہوتی ہیں

نظر جب واقف راز مشیت ہوتی جاتی ہے

 

وہ جب ساغر پلانا چاہتے ہیں چشم مے گوں سے

تو پھر ہر ایک پر ان کی عنایت ہوتی جاتی ہے

 

میرے ذوق تمنا کی حقیقت پوچھتے کیا ہو

انہیں بھی اب تو کچھ مجھ سے محبت ہوتی جاتی ہے

 

میری ہستی ہے آئینہ تیرے رخ کی تجلی کا

زمانے پر عیاں تیری حقیقت ہوتی جاتی ہے

 

اسی کا نام شاید عشق کی معراج ہے صادقؔ

میرے غم کی کہانی وجہ شہرت ہوتی جاتی ہے

کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہئے | بددمؔ نماز عشق ییے ہے خدا گواہ |کلام بیدم شاہ وارثی


 

کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہئے

جانانہ چاہئے در جانانہ چاہئے

 

ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہئے

بس اک نگاہ مرشد مے خانہ چاہئے

 

حاضر ہیں میرے جیب و گریباں کی دھجیاں

اب اور کیا تجھے دل دیوانہ چاہئے

 

عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے

لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہئے

 

پروردۂ کرم سے تو زیبا نہیں حجاب

مجھ خانہ زاد حسن سے پردا نہ چاہئے

 

شکوہ ہے کفر اہل محبت کے واسطے

ہر اک جفائے دوست پہ شکرانہ چاہئے

 

بادہ کشوں کو دیتے ہیں ساغر یہ پوچھ کر

کس کو زکوٰۃ نرگس مستانہ چاہئے

 

بیدمؔ نماز عشق یہی ہے خدا گواہ

ہر دم تصور رخ جانانہ چاہئے

صبا بسو ئے مدینہ رُو کن از ایں دعا گو سلام بر خواں | کلام خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ


 

صبا بسو ئے مدینہ رُو کن از ایں دعا گو سلام بر خواں

بہ گرد شاہ مدینہ گرد و بصد تضرع پیام بر خواں

 

اے بادِ صبا مدینہ کی طرف روانہ ہو جا، اس دعا گو کی طرف سے سلام عرض کرنا، شاہِ مدینہ کے گرد طواف کرتے ہوئے بے حد عاجزی کے ساتھ یہ پیغام عرض کرنا

 

بشو ز من صورت مثالی نماز بگذار اندر آنجا

بہ لحن خوش سورۂ محمد تمام اندر قیام بر خواں

 

ہو بہو میری مثل سراپا و صورت ہو کر وہاں نماز ادا کرنا، اور قیام کی حالت میں خوبصورت لہجے کے ساتھ پوری سورت محمدﷺ تلاوت کرنا

 

بہ باب رحمت گہے گزر کن بباب جبریل گہہ جبیں سا

سلام ربی علیٰ نبی گہے بباب السلام بر خواں

 

کبھی بابِ رحمت دروازے سے گزرنا تو کبھی بابِ جبریل پر ماتھا ٹیکنا۔ کبھی باب السلام پر جا کر نبیﷺ پر رب کا سلام بھیجنا

 

بنہ بہ چندیں ادب طرازی سر ارادت بخاک آں کو

صلوٰۃ وافر بر روح پاک جناب خیر الانام بر خواں

 

ادب کی حدود کی پابندی کرتے ہوئے اس کوچے کی خاک پر سر رکھ کر۔ جنابِ خیر الانام کی مقدس روح کی بارگاہ میں بے شمار سلام عرض کرنا۔

 

بہ لحن داؤد ہم نوا شو بہ نالہ و درد آشنا شو

بہ بزم پیغمبر ایں غزل را ز عبد عاجز نظامؔ بر خواں

 

حضرت داود علیہ السلام کے پر سوز لہجے سے آشنا ہو کر اپنے اندر سوز وگداز پیدا کر کے۔ پیغمبر کی مجلس میں اس عاجز بندے نظام( نظام الدین اولیاء) کی یہ غزل پیش کرنا۔


اظہر فراغ | کوئی سلسلہ نہیں جاوداں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 


کوئی سلسلہ نہیں جاوداں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

میں تو ہر طرح سے ہوں رائیگاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

مرے ہم نفس تو چراغ تھا تجھے کیا خبر مرے حال کی

کہ جیا میں کیسے دھواں دھواں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

نہ ترا وصال وصال تھا نہ تری جدائی جدائی ہے

وہی حالت دل بد گماں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

میں یہ چاہتا ہوں کہ عمر بھر رہے تشنگی مرے عشق میں

کوئی جستجو رہے درمیاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

مرے نقش پا تجھے دیکھ کر یہ جو چل رہے ہیں انہیں بتا

ہے مرا سراغ مرا نشاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی