تمہارے آستاں سے جس کو نسبت ہوتی جاتی ہے | اسے حاصل زمانے بھر کی رفعت ہوتی جاتی ہے


 

تمہارے آستاں سے جس کو نسبت ہوتی جاتی ہے

اسے حاصل زمانے بھر کی رفعت ہوتی جاتی ہے

 

کچھ اس انداز سے ان کی عنایت ہوتی جاتی ہے

تماشا گاہ عالم میری صورت ہوتی جاتی ہے

 

تمہارے حسن کے جلوے نگاہوں میں سمائے ہیں

ہماری زندگی تصویر حیرت ہوتی جاتی ہے

 

تمہاری یاد نے وہ روشنی بخشی ہے اشکوں کو

کہ ان سے میرے غم خانے کی زینت ہوتی جاتی ہے

 

رضائے دوست کی پھر منزلیں آسان ہوتی ہیں

نظر جب واقف راز مشیت ہوتی جاتی ہے

 

وہ جب ساغر پلانا چاہتے ہیں چشم مے گوں سے

تو پھر ہر ایک پر ان کی عنایت ہوتی جاتی ہے

 

میرے ذوق تمنا کی حقیقت پوچھتے کیا ہو

انہیں بھی اب تو کچھ مجھ سے محبت ہوتی جاتی ہے

 

میری ہستی ہے آئینہ تیرے رخ کی تجلی کا

زمانے پر عیاں تیری حقیقت ہوتی جاتی ہے

 

اسی کا نام شاید عشق کی معراج ہے صادقؔ

میرے غم کی کہانی وجہ شہرت ہوتی جاتی ہے

کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہئے | بددمؔ نماز عشق ییے ہے خدا گواہ |کلام بیدم شاہ وارثی


 

کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہئے

جانانہ چاہئے در جانانہ چاہئے

 

ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہئے

بس اک نگاہ مرشد مے خانہ چاہئے

 

حاضر ہیں میرے جیب و گریباں کی دھجیاں

اب اور کیا تجھے دل دیوانہ چاہئے

 

عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے

لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہئے

 

پروردۂ کرم سے تو زیبا نہیں حجاب

مجھ خانہ زاد حسن سے پردا نہ چاہئے

 

شکوہ ہے کفر اہل محبت کے واسطے

ہر اک جفائے دوست پہ شکرانہ چاہئے

 

بادہ کشوں کو دیتے ہیں ساغر یہ پوچھ کر

کس کو زکوٰۃ نرگس مستانہ چاہئے

 

بیدمؔ نماز عشق یہی ہے خدا گواہ

ہر دم تصور رخ جانانہ چاہئے

صبا بسو ئے مدینہ رُو کن از ایں دعا گو سلام بر خواں | کلام خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ


 

صبا بسو ئے مدینہ رُو کن از ایں دعا گو سلام بر خواں

بہ گرد شاہ مدینہ گرد و بصد تضرع پیام بر خواں

 

اے بادِ صبا مدینہ کی طرف روانہ ہو جا، اس دعا گو کی طرف سے سلام عرض کرنا، شاہِ مدینہ کے گرد طواف کرتے ہوئے بے حد عاجزی کے ساتھ یہ پیغام عرض کرنا

 

بشو ز من صورت مثالی نماز بگذار اندر آنجا

بہ لحن خوش سورۂ محمد تمام اندر قیام بر خواں

 

ہو بہو میری مثل سراپا و صورت ہو کر وہاں نماز ادا کرنا، اور قیام کی حالت میں خوبصورت لہجے کے ساتھ پوری سورت محمدﷺ تلاوت کرنا

 

بہ باب رحمت گہے گزر کن بباب جبریل گہہ جبیں سا

سلام ربی علیٰ نبی گہے بباب السلام بر خواں

 

کبھی بابِ رحمت دروازے سے گزرنا تو کبھی بابِ جبریل پر ماتھا ٹیکنا۔ کبھی باب السلام پر جا کر نبیﷺ پر رب کا سلام بھیجنا

 

بنہ بہ چندیں ادب طرازی سر ارادت بخاک آں کو

صلوٰۃ وافر بر روح پاک جناب خیر الانام بر خواں

 

ادب کی حدود کی پابندی کرتے ہوئے اس کوچے کی خاک پر سر رکھ کر۔ جنابِ خیر الانام کی مقدس روح کی بارگاہ میں بے شمار سلام عرض کرنا۔

 

بہ لحن داؤد ہم نوا شو بہ نالہ و درد آشنا شو

بہ بزم پیغمبر ایں غزل را ز عبد عاجز نظامؔ بر خواں

 

حضرت داود علیہ السلام کے پر سوز لہجے سے آشنا ہو کر اپنے اندر سوز وگداز پیدا کر کے۔ پیغمبر کی مجلس میں اس عاجز بندے نظام( نظام الدین اولیاء) کی یہ غزل پیش کرنا۔


اظہر فراغ | کوئی سلسلہ نہیں جاوداں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 


کوئی سلسلہ نہیں جاوداں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

میں تو ہر طرح سے ہوں رائیگاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

مرے ہم نفس تو چراغ تھا تجھے کیا خبر مرے حال کی

کہ جیا میں کیسے دھواں دھواں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

نہ ترا وصال وصال تھا نہ تری جدائی جدائی ہے

وہی حالت دل بد گماں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

میں یہ چاہتا ہوں کہ عمر بھر رہے تشنگی مرے عشق میں

کوئی جستجو رہے درمیاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

مرے نقش پا تجھے دیکھ کر یہ جو چل رہے ہیں انہیں بتا

ہے مرا سراغ مرا نشاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

صوفی انور فروز پوری | عشق میں سوزِ عشق سے شمع صفت پگھل گئے

 


عشق میں سوزِ عشق سے شمع صفت پگھل گئے

آپ لگائی ہم نے آگ آپ ہی اس میں جل گئے

 

خوب تھی برقِ حسنِ یار چمکی کہیں گری کہیں

پاس جو تھے بچے رہے دور جو تھے وہ جل گئے

 

دیر تھا یا کہ تھا حرم  اس کی نہیں خبر ہمیں

یار جدھر نکل گیا ہم بھی ادھر نکل گئے

 

مست نظر نے دیکھ کر گرتے ہووں پہ کی نظر

پا کے نظر کا آسرا گرتے ہوئے سنبھل گئے

 

جوشِ جنوں کے ساتھ ساتھ پاسِ ادب بھی رہا ہمیں

حسن کی بارگاہ میں جب گئے  سر کے بل گئے

 

ہم نے خیالِ یار میں دیکھے بلند و پست بھی

برسوں رہا یہ مشغلہ ڈوب گئے اچھل گئے

 

آنکھ تھی محوِ جستجو دل میں تھا شوقِ دیدِ یار

کانٹوں کو روندتے ہوئے آبلہ پا نکل گئے

 

رندوں کے واسطے بھلا قیدِ تعینات کیا

قید تعینات سے جب چاہا تب نکل گئے

 

 

انور ازل کے دن سے ہے عشق و خرد میں دشمنی

جب کبھی سامنا ہوا دونوں میں تیر چل گئے

 

صوفی انور فروز پوری

کلام بیدم وارثی | نہ کنشت و کلیسا سے کام ہمیں در دیر نہ بیت حرم سے غرض | تری یاد ہو اور دل بیدمؔ ہو ترا درد ہو اور دل بیدمؔ ہو




 

نہ کنشت و کلیسا سے کام ہمیں در  دیر نہ بیت حرم سے غرض

 کہ ازل سے ہمارے سجدوں کو رہی تیرے ہی نقش قدم سے غرض

 

 جو تو مہر ہے تو ذرہ ہم ہیں تو بحر ہے تو قطرہ ہم ہیں

 تو صورت ہے ہم آئینہ ہیں  ہمیں تجھ سے غرض تجھے ہم سے غرض

 

نہ نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں

 نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ کرم سے غرض

 

 رکھا کوچۂ عشق میں جس نے قدم ہوا حضرت عشق کا جس پہ کرم

اسے آپ سے بھی سروکار نہیں جو غرض ہے تو اپنے صنم سے غرض

 

تری یاد  ہو  اور  دل  بیدمؔ  ہو  ترا  درد  ہو  اور  دل بیدمؔ  ہو

بیدمؔ کو رہے ترے غم سے غرض ترے غم کو رہے بیدمؔ سے غرض

نہ فلک چاند تارے نہ سحر نہ رات ہوتی || سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی


 

نہ فلک چاند تارے نہ سحر نہ رات ہوتی

نہ تیرا جمال ہوتا نہ یہ کائنات ہوتی


ابلیس تھا فرشتہ آدم کو سجدہ سمجھا

وہ حکم خدا سمجھتا تو کچھ اور بات ہوتی


یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تم سوارو

میرے ہاتھوں سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی


سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی


گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی

وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی


یہ بجا کلی نے کھل کر کیا گلستاں معطر

اگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی


گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک

تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی