میں خوشی کوجانتا کیا جو وہ غم زدہ نہ کرتے | کلام غلام معین الدین بڑے لالہ جی سرکار | گولڑہ شریف| men khushi ko janta kia urdu lyrics


 

میں خوشی کوجانتا کیا جو وہ غم زدہ نہ کرتے

مجھے دردِ دل نہ دیتے ، میرا کچھ سوا نہ کرتے

 

میرا آشیاں جلایا مجھے لامکاں بنایا

یہ بقا کہاں سے ملتی وہ اگر فنا نہ کرتے

 

مجھے سرِ لاالہ کی کبھی آگہی نہ ہوتی

جو غمِ جہاں سے بڑھ کر کوئی غم عطا نہ کرتے

 

مری شمع ِزندگی تو مجھے ساتھ ہی جلاتی

کہ یہ حشر تک نہ بجھتی تم اگر جدا نہ کرتے

 

سرِ بزم گر بلا کر ہمیں تم نہ کرتے رسوا

تیرا ہر ستم اٹھاتے پر کبھی گلہ نہ کرتے

 

کبھی اے شہیدِ ایماں! یہ جہاں نہ زندہ ہوتا

سرِ نیزہ بندگی کا جو حق آپ ادا نہ کرتے

 

مرا جذبہ محبت نہ معین جگمگاتا

وہ اگر ستم نہ کرتے وہ اگر جفا نہ کرتے

نظر ملا کرکسی نے یارو نظر کا جادو چلا دیا ہے | غلام معین الدین بڑے لالہ جی سرکار | گولڑہ شریف


 

نظر ملا کرکسی نے یارو نظر کا جادو چلا دیا ہے

نہ جانے کیسی دیکھائی آنکھیں کہ پل میں اپنا بنا لیا ہے

 

نہ دن کو راحت نہ چین شب کو یہ کیسی الجھن میں آ پھنسا ہوں

خدا ہی جانے کسی نے مجھ پر یہ کیسا جادو کیا ہوا ہےے

 

غمِ جدائی میں مر رہا ہوں، ہزار حیلے بنا رہا ہوں

کسی طرح جا ملوں میں  اس سے جو مجھ کو چھوڑے چلا گیا ہے

 

نظر سے مل کر نظر نے آخر عجیب شہرت جنوں میں پائی

کہ جس نے دیکھا کہا اسی نے نظر کا مارا یہ پھر رہا ہے

 

نہ پوچھ مجھ سے کہ کیسی گزری گزار دی  جس طرح بھی گزری

کسی پہ کوئی گلہ نہیں ہے یہ اپنی تقدیر کا لکھا ہے

 

نہیں محبت رہی جو مجھ سے تو اس میں کچھ زور ہی نہیں ہے

کسی نے نظریں جو پھیر لی ہیں بتاؤ اس کا علاج کیا ہے

 

نظر نے جس دم نظر کو دیکھا تو پھر نظر ہی نظر میں اے دل

نظر نے باتیں نظر سے کر کے نظر سے سب کچھ نذر کیا ہے

 

وہ چپکے چپکے سے مسکرانا وہ چپکے چپکے سے بات کرنا

اندھیری راتوں میں آنا جانا  گلے وہ ملنا کہا ں گیا ہے

 

کسی کی فرقت میں رات دن اب بڑے مزے سے گزر رہے تھے

لگن سی دل میں لگی ہوئی ہے مزہ محبت کا آ رہا ہے

 

کہا جو میں نے کہ بعد مردن  میرے جنازے پہ ہاتھ رکھنا

تو ہنستے ہنستے کہا یہ اس نے جہاں میں ایسا کبھی ہوا ہے

 

یہ بات آپس میں طے ہوئی ہے کہ مجھ میں تجھ میں دوئی  نہیں ہے

ہے ایک ہی ذات کا یہ جلوہ نظر جو دونوں میں آ رہا ہے

 

نہیں ہےمشتاق اب مزہ کچھ یہ دل لگی ایک کھیل سی ہے

کبھی محبت کبھی ہے نفرت یہ اک تماشا بنا ہوا ہے

تو نے بت ہر جائی ، کچھ ایسی ادا پائی tu ne but e har jai urdu lyric amir minai کلام امیر مینائی


 

تو نے بت ہر جائی ، کچھ ایسی ادا پائی

تکتا ہے تیری صورت ہر ایک تماشائی

 

اب دل ہے یہ چکر میں سب ہوش و خرد گم ہیں

کوچے میں محبت کے چلتی نہیں دانائی

 

تُو عِشق میرا ہر گِز غیروں سے نہ کر ظاہر

 اِس میں میرا چرچا ہے اور ہے تیری رُسوائی

 

پہلے سے نہ سوچا تھا انجام محبت کا

تب ہوش میں آئے ہیں جب جان پہ بن آئی

 

جی بھر گیا دنیا سے اب دل میں یہ حسرت ہے

تو ہوتیرا جلوہ ہو  اور گوشئہ تنہائی

 

طعنوں سے ہے دل زخمی، زخموں سے جگر خوں ہے

لو دل کے لگانے کی ہم نے یہ سزائی پائی

 

یوں باندھ کےبیٹھا ہے دامن تیرے دامن سے

دیوانے پہ قُربان ہے داناؤں کی دانائی

 

مدت سے امیر ان سے ملنے کی تمنا تھی

آج اس نے بلایا ہے، لینے کو قضا آئی

 

جدا وہ ہو گئے ،لگتا نہیں ہے | ہمارا دل کہیں لگتا نہیں ہے | juda wo ho gay lyrics | hmara dil kahen lagta lyrics


 

جدا  وہ ہو گئے ،لگتا نہیں ہے

ہیں پردے میں مگر پردہ نہیں ہے

 

بسی ہے آنکھ میں صورت تمہاری

کوئی چہرہ ہمیں جچتا نہیں ہے

 

جدائی آپ کی تڑپا رہی ہے

ہمارا دل کہیں لگتا نہیں ہے

 

ذرا سی دیر کو آ جائیے گا

بہت دن سے تمہیں دیکھا نہیں ہے

 

بظاہر تو نظر آتے نہیں ہو

نہیں ہو ساتھ تم ، ایسا نہیں ہے

 

محبت میں دلِ ناداں سنور جاتا تو بہتر تھا | Muhabbat men dil e nadan sanwar jata


 

محبت میں دلِ ناداں سنور جاتا تو بہتر تھا

دیوانہ کوئے جاناں میں ہی مر جاتا تو بہتر تھا

 

ہوا کیوں معتبر تو کوئے جاناں میں ارےناداں

تو بن کر راکھ راہوں میں بکھر جاتا تو بہتر تھا

 

مچل کر خاک میری ان کے قدموں سے لپٹ جاتی

وہ گر گورے غریباں سے گزر جاتا تو بہتر تھا

 

دمِ آخر بھی آجائے اگر میری عیادت کو

اگر وقتِ ازل یوں ہی گزر جاتا تو بہتر تھا

 

عبادت بھی کیے جاتا ہے اتراتا بھی ہےزاہد

اگر وہ بزمِ حق میں چشم ِ تر جاتا تو بہتر تھا

 

بنا کر مجھ کو اپنا پھیر لی اس نے نظر  مجھ سے

اگر آغاز میں انجان بن جاتا تو بہتر تھا

 

نظر بھر کراگر وہ دیکھ لیتے نازؔ بسمل کو

اگر وہ تیر سینے میں اتر جاتا تو بہتر تھا

محبت میں دلِ ناداں سنور جاتا تو بہتر تھا | صوفیانہ کلام | خوبصورت اشعار


 

محبت میں دلِ ناداں سنور جاتا تو بہتر تھا

دیوانہ کوئے جاناں میں ہی مر جاتا تو بہتر تھا

 

ہوا کیوں معتبر تو کوئے جاناں میں ارےناداں

تو بن کر راکھ راہوں میں بکھر جاتا تو بہتر تھا

 

مچل کر خاک میری ان کے قدموں سے لپٹ جاتی

وہ گر گورے غریباں سے گزر جاتا تو بہتر تھا

 

دمِ آخر بھی آجائے اگر میری عیادت کو

اگر وقتِ ازل یوں ہی گزر جاتا تو بہتر تھا

 

عبادت بھی کیے جاتا ہے اتراتا بھی ہےزاہد

اگر وہ بزمِ حق میں چشم ِ تر جاتا تو بہتر تھا

 

بنا کر مجھ کو اپنا پھیر لی اس نے نظر  مجھ سے

اگر آغاز میں انجان بن جاتا تو بہتر تھا

 

نظر بھر کراگر وہ دیکھ لیتے نازؔ بسمل کو

اگر وہ تیر سینے میں اتر جاتا تو بہتر تھا