میں کہیں بھی جاوں اے جاں میرا انتظار کرنا


 

میں کہیں بھی جاوں اے جاں میرا انتظار کرنا

میرے بعد پھر کسی سے کبھی تم نہ پیار کرنا

 

میرا نام جن لبوں  پہ کبھی کھیلتا تھا برسوں

میری جان میں وہی ہوں میر ااعتبار کرنا

 

تو نگارِ زندگی تھا تو بہارِ زندگی تھا

مجھے یاد ہے ابھی تک تیرا بے قرار کرنا

 

تو بذاتِ خود نشہ ہے تو مثالِ میکدہ ہے

تیرا خود سے منہ چھپانا مجھے شرم سار کرنا

 

تو اگر بھٹک بھی جائے تیرے پاس ہے وہ رستہ

جسے نور نے دکھایا وہی اختیار کرنا

 

کہتے ہو مجھ سے عشق افسانہ چاہیے | قمر جلالوی


 

کہتے ہو مجھ سے عشق افسانہ چاہیے

رسوائی ہو گی آپ کو شرمانہ چاہیے

 

خود ار اتنی  فطرتِ رندانہ چاہیے

ساقی بھی خود کہے کوئی پیمانہ چاہیے

 

عاشق بغیر حسن و جوانی فضول ہے

 جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ چاہیے

 

مٹی خراب کرتے ہو کیوں بیمارِ ہجر کی

جو تم پہ مر گیا اسے دفنانہ چاہیے

 

آنکھوں میں دم رکا ہےکسی کے لیے ضرور

ورنہ مریضِ ہجر کو مر جانا چاہیے

 

وعدہ اندھیری رات میں آنے کا اے قمرؔ

اب چاند چھپ گیا انہیں آ جانا چاہیے

قمر جلالوی