تو نے بت ہر جائی ،
کچھ ایسی ادا پائی
تکتا ہے تیری صورت ہر
ایک تماشائی
اب دل ہے یہ چکر میں
سب ہوش و خرد گم ہیں
کوچے میں محبت کے
چلتی نہیں دانائی
تُو عِشق میرا ہر گِز
غیروں سے نہ کر ظاہر
اِس میں میرا چرچا ہے اور ہے تیری رُسوائی
پہلے سے نہ سوچا تھا
انجام محبت کا
تب ہوش میں آئے ہیں
جب جان پہ بن آئی
جی بھر گیا دنیا سے
اب دل میں یہ حسرت ہے
تو ہوتیرا جلوہ ہو اور گوشئہ تنہائی
طعنوں سے ہے دل زخمی،
زخموں سے جگر خوں ہے
لو دل کے لگانے کی ہم
نے یہ سزائی پائی
یوں باندھ کےبیٹھا ہے
دامن تیرے دامن سے
دیوانے پہ قُربان ہے
داناؤں کی دانائی
مدت سے امیر ان سے
ملنے کی تمنا تھی
آج اس نے بلایا ہے،
لینے کو قضا آئی
0 Post a Comment:
Post a Comment