عشق
میں سوزِ عشق سے شمع صفت پگھل گئے
آپ
لگائی ہم نے آگ آپ ہی اس میں جل گئے
خوب
تھی برقِ حسنِ یار چمکی کہیں گری کہیں
پاس
جو تھے بچے رہے دور جو تھے وہ جل گئے
دیر
تھا یا کہ تھا حرم اس کی نہیں خبر ہمیں
یار
جدھر نکل گیا ہم بھی ادھر نکل گئے
مست
نظر نے دیکھ کر گرتے ہووں پہ کی نظر
پا
کے نظر کا آسرا گرتے ہوئے سنبھل گئے
جوشِ
جنوں کے ساتھ ساتھ پاسِ ادب بھی رہا ہمیں
حسن
کی بارگاہ میں جب گئے سر کے بل گئے
ہم
نے خیالِ یار میں دیکھے بلند و پست بھی
برسوں
رہا یہ مشغلہ ڈوب گئے اچھل گئے
آنکھ
تھی محوِ جستجو دل میں تھا شوقِ دیدِ یار
کانٹوں
کو روندتے ہوئے آبلہ پا نکل گئے
رندوں
کے واسطے بھلا قیدِ تعینات کیا
قید
تعینات سے جب چاہا تب نکل گئے
انور
ازل کے دن سے ہے عشق و خرد میں دشمنی
جب
کبھی سامنا ہوا دونوں میں تیر چل گئے
صوفی
انور فروز پوری
0 Post a Comment:
Post a Comment