نہ
کنشت و کلیسا سے کام ہمیں در دیر
نہ بیت حرم سے غرض
کہ ازل سے ہمارے سجدوں کو رہی تیرے ہی نقش قدم
سے غرض
جو تو مہر ہے تو ذرہ ہم ہیں تو بحر ہے تو قطرہ
ہم ہیں
تو صورت ہے ہم آئینہ ہیں ہمیں تجھ سے غرض تجھے ہم سے غرض
نہ
نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں
نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ
کرم سے غرض
رکھا کوچۂ عشق میں جس نے قدم ہوا حضرت عشق کا جس
پہ کرم
اسے
آپ سے بھی سروکار نہیں جو غرض ہے تو اپنے صنم سے غرض
تری
یاد ہو اور
دل بیدمؔ
ہو ترا درد ہو اور دل بیدمؔ ہو
بیدمؔ
کو رہے ترے غم سے غرض ترے غم کو رہے بیدمؔ سے غرض
0 Post a Comment:
Post a Comment