تمہارے آستاں سے جس کو
نسبت ہوتی جاتی ہے
اسے حاصل زمانے بھر کی
رفعت ہوتی جاتی ہے
کچھ اس انداز سے ان کی
عنایت ہوتی جاتی ہے
تماشا گاہ عالم میری صورت
ہوتی جاتی ہے
تمہارے حسن کے جلوے
نگاہوں میں سمائے ہیں
ہماری زندگی تصویر حیرت
ہوتی جاتی ہے
تمہاری یاد نے وہ روشنی
بخشی ہے اشکوں کو
کہ ان سے میرے غم خانے کی
زینت ہوتی جاتی ہے
رضائے دوست کی پھر منزلیں
آسان ہوتی ہیں
نظر جب واقف راز مشیت ہوتی
جاتی ہے
وہ جب ساغر پلانا چاہتے ہیں
چشم مے گوں سے
تو پھر ہر ایک پر ان کی
عنایت ہوتی جاتی ہے
میرے ذوق تمنا کی حقیقت
پوچھتے کیا ہو
انہیں بھی اب تو کچھ مجھ
سے محبت ہوتی جاتی ہے
میری ہستی ہے آئینہ تیرے
رخ کی تجلی کا
زمانے پر عیاں تیری حقیقت
ہوتی جاتی ہے
اسی کا نام شاید عشق کی
معراج ہے صادقؔ
میرے غم کی کہانی وجہ
شہرت ہوتی جاتی ہے