آتش ِ غم کو مسیحائی ہوا دیتی ہے || وہ دوا ہی نہیں ہوتی جو شفا دیتی ہے || ادریس آزاد


 

آتش ِ غم کو مسیحائی ہوا دیتی ہے

وہ دوا ہی نہیں ہوتی جو شفا دیتی ہے


اُس کے ترشے ہوئے ہونٹوں پہ وہ ترشے ہوئے لفظ

 بات کرتی ہے تو تصویر بنادیتی ہے


آپ کا کام نہیں آپ ستارے ٹانکیں

عشق کی بات ہے مردوں کو مزا دیتی ہے


سبزہ زاروں میں سِرکتے ہوئے پانی کی قسم

چاندنی رات بھی پھولوں کو غذا دیتی ہے


آپ کا پیار مجھے پھر سے رُلا دیتا ہے

آپ کی بات مرا درد بڑھا دیتی ہے


مجھ سے تو شعر بھی سنتی نہیں نغمہ تو کجا

دہر کا درد مجھے آکے سنا دیتی ہے


روز کہتی ہے مرو! جان سے جاؤ لیکن

اِک ذرا کھانسنے پہ بڑھ کے دوا دیتی ہے


اُس کی مسکان مری جان کی قیمت سے سوا

مُسکراتی ہے کہ مشروب پلا دیتی ہے

ادریس آزاد

0 Post a Comment:

Post a Comment