میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے || سرِ آئینہ مرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے || سلیم کوثری


 

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سرِ آئینہ مِرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے


میں کسی کے دست طلب میں ہوں، تو کسی کے حرفِ دعا میں ہوں

میں نصیب ہوں کسی اور کا، مجھے مانگتا کوئی اور ہے


عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی

میں قریب ہوں کسی اور کے، مجھے جانتا کوئی اور ہے


مِری روشنی تِرے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر

تو قریب آ تجھے دیکھ لوں، تو وہی ہے یا کوئی اور ہے


تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتا نہیں

تِری داستاں کوئی اور تھی، مِرا واقعہ کوئی اور ہے


وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں

مِرا جرم تو کوئی اور تھا، پر مری سزا کوئی اور ہے


کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے


جو مِری ریاضتِ نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی

تو پھر اسکے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

0 Post a Comment:

Post a Comment