نہ فلک چاند تارے نہ سحر نہ رات ہوتی || سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی


 

نہ فلک چاند تارے نہ سحر نہ رات ہوتی

نہ تیرا جمال ہوتا نہ یہ کائنات ہوتی


ابلیس تھا فرشتہ آدم کو سجدہ سمجھا

وہ حکم خدا سمجھتا تو کچھ اور بات ہوتی


یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تم سوارو

میرے ہاتھوں سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی


سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی


گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی

وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی


یہ بجا کلی نے کھل کر کیا گلستاں معطر

اگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی


گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک

تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

شبِ وصال کی ضد ہے کہ جا نہیں آتی || یہ خوش خرام , بہ فرشِ عزا نہیں آتی || دیے خلا میں جلانے کا فائدہ یہ ہے دیے بجھانے یہاں پر ہوا نہیں آتی


 

شبِ وصال کی ضد ہے کہ جا نہیں آتی

یہ خوش خرام , بہ فرشِ عزا نہیں آتی


تمھارا چین بھی غارت ہے آسماں ہو کر

ہمیں بھی راس زمیں کی فضا نہیں آتی


نکل کے دل سے جو فوراً قبول ہو جائے

مجھے تو کوئی بھی ایسی دعا نہیں آتی


دیے خلا میں جلانے کا فائدہ یہ ہے

دیے بجھانے یہاں پر ہوا نہیں آتی


کسی کی آہ و بکا پر خدا نہیں آتا

کسی کی چیخ پہ خلق خدا نہیں آتی

خالد ندیم شانی

یوں میری آنکھ سےبے ساختہ آنسو نکلے || جس طرح پھول کا دل چیر کے خوشبو نکلے || کم از کم اتنا تو تعلق رہے موت کے بعد || صوفیانہ کلام


 

یوں میری آنکھ سےبے ساختہ آنسو نکلے

جس طرح پھول کا دل چیر کے خوشبو نکلے


اب بہار آئے تو اس طرح آئے یا رب

پھول تو پھول ہیں کانٹوں سے بھی خوشبو نکلے


کم از کم اتنا تو تعلق رہے موت کے بعد

کفن سر کائیں اگر، تو میری جگہ تو نکلے

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا || جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا || جوش ملیح آبادی


 

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا


وہ تجھے یاد کرے جس نے بھلایا ہو کبھی

میں نے تجھ کو نہ بھلایا نا کبھی یاد کیا


پر میرے کاٹ کے صیاد نے اعلان کیا

اب قفس کھول دیا جا تجھے آزاد کیا


سو کے اٹھے ہو مگر چہرے پہ بکھری زلفیں

کس پریشان طبیعت نے تجھے یاد کیا


اس کا رونا نہیں کیوں تم نےکیا دل برباد

اس کا غم ہے کہ بہت دیر سے برباد کیا


اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلم پہ نثار

پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا


دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے سونے نہ دیا

جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا


مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید

لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

جوش ملیح آبادی

آتش ِ غم کو مسیحائی ہوا دیتی ہے || وہ دوا ہی نہیں ہوتی جو شفا دیتی ہے || ادریس آزاد


 

آتش ِ غم کو مسیحائی ہوا دیتی ہے

وہ دوا ہی نہیں ہوتی جو شفا دیتی ہے


اُس کے ترشے ہوئے ہونٹوں پہ وہ ترشے ہوئے لفظ

 بات کرتی ہے تو تصویر بنادیتی ہے


آپ کا کام نہیں آپ ستارے ٹانکیں

عشق کی بات ہے مردوں کو مزا دیتی ہے


سبزہ زاروں میں سِرکتے ہوئے پانی کی قسم

چاندنی رات بھی پھولوں کو غذا دیتی ہے


آپ کا پیار مجھے پھر سے رُلا دیتا ہے

آپ کی بات مرا درد بڑھا دیتی ہے


مجھ سے تو شعر بھی سنتی نہیں نغمہ تو کجا

دہر کا درد مجھے آکے سنا دیتی ہے


روز کہتی ہے مرو! جان سے جاؤ لیکن

اِک ذرا کھانسنے پہ بڑھ کے دوا دیتی ہے


اُس کی مسکان مری جان کی قیمت سے سوا

مُسکراتی ہے کہ مشروب پلا دیتی ہے

ادریس آزاد

تمھارے غم کا سہارا بھی کام آتا ہے || کبھی کبھی یہ کنارہ بھی کام آتا ہے || فیض محمد شیخ


 

تمھارے غم کا سہارا بھی کام آتا ہے

کبھی کبھی یہ کنارہ بھی کام آتا ہے


جسے حقیر سمجھتے ہیں عیش کوشی میں

پھر ایک دن وہ گزارہ بھی کام آتا ہے


تو کچھ نہ بول نہ لب کھول صرف آنکھ اٹھا

گداگروں کو اشارہ بھی کام آتا ہے


ہمیں غرض ہی نہیں پیار کے محاصل سے

ہم ایسوں کو تو خسارہ بھی کام آتا ہے


تمھارا ساتھ نہیں ہے تو کوئی رنج نہیں

مسافروں کو ستارہ بھی کام آتا ہے


مرا نصیب کہ میٹھا کنواں ملا مجھ کو

کڑے دنوں میں تو کھارا بھی کام آتا ہے


وہ جھیل جس پہ گزاری تھی ایک شام کبھی

ہمیں اب اس کا نظارہ بھی کام آتا ہے

فیض محمد شیخ

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے || شگفتہ شگفتہ بہانے ترے || عبدالحمید عدم


 

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

شگفتہ شگفتہ بہانے ترے


فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی

ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے


بس اک داغِ سجدہ مری کائنات

جبینیں تری ، آستانے ترے


ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام

انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے


عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ

کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے


عبدالحمید عدم

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے || سرِ آئینہ مرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے || سلیم کوثری


 

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سرِ آئینہ مِرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے


میں کسی کے دست طلب میں ہوں، تو کسی کے حرفِ دعا میں ہوں

میں نصیب ہوں کسی اور کا، مجھے مانگتا کوئی اور ہے


عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی

میں قریب ہوں کسی اور کے، مجھے جانتا کوئی اور ہے


مِری روشنی تِرے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر

تو قریب آ تجھے دیکھ لوں، تو وہی ہے یا کوئی اور ہے


تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتا نہیں

تِری داستاں کوئی اور تھی، مِرا واقعہ کوئی اور ہے


وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں

مِرا جرم تو کوئی اور تھا، پر مری سزا کوئی اور ہے


کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے


جو مِری ریاضتِ نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی

تو پھر اسکے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے