نہ فلک چاند تارے نہ سحر
نہ رات ہوتی
نہ تیرا جمال ہوتا نہ یہ
کائنات ہوتی
ابلیس تھا فرشتہ آدم کو
سجدہ سمجھا
وہ حکم خدا سمجھتا تو کچھ
اور بات ہوتی
یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں
لاکھ تم سوارو
میرے ہاتھوں سے سنورتے تو
کچھ اور بات ہوتی
سوئے مے کدہ نہ جاتے تو
کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ
اور بات ہوتی
گو ہوائے گلستاں نے مرے
دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو
کچھ اور بات ہوتی
یہ بجا کلی نے کھل کر کیا
گلستاں معطر
اگر آپ مسکراتے تو کچھ
اور بات ہوتی
گو حرم کے راستے سے وہ
پہنچ گئے خدا تک
تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی